وولکا فوڈز میں تنخواہیں آدھی، ذوالفقار انجم مزدوروں کا خون پی کر موٹا ہو گیا

وولکا فوڈز میں تنخواہیں آدھی، ذوالفقار انجم مزدوروں کا خون پی کر موٹا ہو گیا

وولکا فوڈز میں تنخواہیں آدھی، ذوالفقار انجم مزدوروں کا خون پی کر موٹا ہو گیا

ملتان (بیٹھک انویسٹی گیشن سیل) لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ ملتان کے متعلقہ حکام کی ملی بھگت، ماضی میں ٹیکس، بجلی، گیس چوری اور منی لانڈرنگ کے الزامات کا سامنا کرنے والا ملتان کا بدنام زمانہ صنعت کار چوہدری ذوالفقار علی انجم کے بہاولپور روڈ پر واقع انڈسٹریل یونٹ وولکا فوڈز کے ہزاروں مزدور حکومت پنجاب کی کم از کم ماہانہ اجرت کا نصف سے بھی کم وصول کرنے پر مجبور۔ عوامی، شہری اور لیبر رائٹس کے لئے کام کرنے والے حلقوں کا وزیراعلی مریم نواز، صوبائی وزیر فیصل ایوب کھوکھر، سیکرٹری لیب محمد نعیم غوث، ڈائریکٹر جنرل لیبر ویلفیر سیدہ کلثوم حئی، کمشنر ملتان عامر کریم خان اور ڈپٹی کمشنر وسیم حامد سندھو سے صورتحال کا نوٹس لینے کا مطالبہ۔ محکمہ لیبر میں موجود ذرائع اور وولکا فوڈز میں کام کرنے کے والے مزدورں کے مطابق 9ستمبر کو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے پنجاب حکومت کی جانب سے غیر ہنرمند مزدوروں کی کم از کم ماہانہ اجرت 40,000 روپے مقرر کیے جانے کے باوجود ملتان میں بہاولپور روڈ پر واقع وولکا فوڈز میں ہزاروں مزدوروں کو مقررہ اجرت سے کافی کم تنخواہ مل رہی ہے۔ وولکا فوڈز میں کام کرنے والے مزدوروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنی مشکلات کا اظہار کرتے ہوئے روزنامہ بیٹھک کو بتایا کہ انہیں ماہانہ صرف 16,000 سے 19,000 روپے ادا کیے جا رہے ہیں جو کہ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم اجرت سے بہت کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال سے محنت کشوں میں شدید بے چینی اور مایوسی کا پائی جاتی ہے لیکن وہ کوئی آواز نہیں اٹھا سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ اداروں کو اس حقیقت کا بخوبی علم ہے کہ وولکا فوڈز کے مزدوروں کو کم از کم اجرت سے کم تنخواہ مل رہی ہے مگر انہوں نے اپنی آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں۔ محکمہ لیبر میں موجود ذرائع کے مطابق کم از کم اجرت سے بھی آدھی سے بھی کم تنخواہ مزدوروں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور متعلقہ افسران کی غفلت سے زیادہ ان کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے کیونکہ اس سنگین مسئلے کا علم ہونے کے باوجود فیکٹری مالک کو اس غیر قانونی عمل کو روکنے کے لیے اب تک کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس کی بنیادی وجہ فیکٹری مالک کا بااثر اور منتقم مزاج ہونا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق ہر آجر اس بات کا پابند ہے کہ وہ حکومت کے نوٹیفکیشن کے مطابق کم از کم اجرت ادا کرے لیکن وولکا فوڈز کے مزدوروں کے ساتھ ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا اس صورتحال میں محکمہ لیبر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں مگر بااثر فیکٹری مالک کے خلاف کاروائی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔مزدروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ پنجاب لیبر انسپیکشن پالیسی 2018 کی دفعہ 26 کے تحت محکمہ لیبر انسپیکشن کرنے کے مجاز ہیں لیکن وولکا فوڈز میں حال ہی میں کوئی انسپیکشن کی گئی ہے یا نہیں اس حوالے سے محکمہ مسلسل حقائق چھپا رہا ہے ان کا کہنا تھا اگر کوئی انسپیکشن ہوئی ہوتی تو اس میں مزدوروں کو کم اجرت ملنے کا معاملہ سامنے آ چکا ہوتا اور انسپکشن کے نتیجے میں کارروائی بھی عمل میں لائی جا چکی ہوتئ لیکن لگ یہی رہا ہے کہ اگر کبھی انسپکشن کی بھی گئی ہے تو محض کاغذی کاروائی پوری کرنے کے لیے لیکن اس کا فائدہ عام مزدور کو نہ پہنچ سکا۔ان کا کہنا تھا کہ وولکا فوڈز کے حوالے سے ایک اور سنگین مسئلہ مزدوروں کی رجسٹریشن کا ہےانہوں نے بتایا کہ پنجاب انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ 2010 کی دفعہ 29 کے مطابق ہر آجر اپنے مزدوروں کو رجسٹرڈ کرنے کا پابند ہے لیکن وولکا فوڈز میں دس ہزار سے زائد مزدوروں میں سے صرف 55 رجسٹرڈ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ فیکٹری کے بدنام زمانہ مالک اور محکمہ لیبر کے حکام کے اس غیر قانونی عمل کی وجہ سے ہزاروں مزدور اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ غیر رجسٹرڈ مزدوروں کو نہ صرف کم اجرت ملتی ہے بلکہ وہ اوور ٹائم، ای او بی آئی، سوشل سکیورٹی اور ملازمت کی حفاظت جیسے اہم حقوق سے بھی محروم ہیں اور یہ صورتحال واضح طور پر محنت کشوں کے استحصال کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ لیبر کو مزدوروں کی عدم رجسٹریشن پر کارروائی کرنی چاہیے کیونکہ قانونی طور پر یہ ایک سنگین خلاف ورزی ہے اور اس پر سخت کارروائی ضروری ہے۔ بیٹھک نیوز سے بات کرتے ہوئے مزدوروں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ وہ تنخواہ میں کمی یا عدم رجسٹریشن کے خلاف باقاعدہ شکایت درج کرانے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ انہیں اپنی ملازمت جانے کا ڈر ہے۔لیبر رائٹس کے لئے کام کرنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ شکایت درج کروانے کی صورت میں ملازمت جانے کا یہ خوف مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور لیبر قوانین کے نفاذ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فیکٹریز ایکٹ 1934 کی دفعہ 80 کے تحت لیبر انسپکٹرز کو مزدوروں کے رجسٹر اور کام کے اوقات کی جانچ پڑتال کرنے کا اختیار حاصل ہے چاہے مزدوروں کی جانب سے کوئی شکایت موصول نہ ہوئی ہو متعلقہ اداروں کو اس قانونی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے از خود کارروائی کرنی چاہیے لیکن وولکا فوڈز کے معاملے میں ایسا نہ کرنا بندہ مزدور کے اوقات مزید تلخ کرنے کے مترادف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پنجاب لیبر انسپیکشن پالیسی 2018 کی دفعہ 26 کے تحت معتبر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات یا میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر بھی انسپیکشن کی جا سکتی ہے لیکن روزنامہ بیٹھک میں ہزاروں مزدوروں کو کم اجرت اور غیر رجسٹریشن کی رپورٹس چھپنے کے باوجود لیبر ڈیپارٹمنٹ کے افسران نے والکا فوڈز کے خلاف تاحال قانونی کارروائی شروع نہیں کی جو کہ افسوسناک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام مسائل لیبر قوانین کے نفاذ اور ہزاروں مزدوروں کی زندگیوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور ان مسائل پر فوری اور قانونی کارروائی کی ضرورت ہے۔ عوامی اور شہری حلقوں کا کہنا تھا کہ وولکا فوڈز جیسے بڑے صنعتی ادارے میں مزدوروں کے حقوق کی یہ خلاف ورزی لیبر قوانین کے نفاذ کی کمزور صورتحال کو ظاہر کرتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلی مریم نواز، صوبائی وزیر فیصل ایوب کھوکھر، سیکرٹری لیبر محمد نعیم غوث، ڈائریکٹر جنرل لیبر ویلفیر سیدہ کلثوم حئی، کمشنر ملتان عامر کریم خان اور ڈپٹی کمشنر وسیم حامد سندھو کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے اور بااثر فیکٹری مالک چوہدری ذوالفقار انجم کو اس کو اس بات کا پابند بنانا چاہیے کہ وہ یہ بات یقینی بنائے کہ وولکا فوڈز میں کام کرنے والے تمام مزدوروں کو ان کے قانونی حقوق دے۔اس سلسلے میں روزنامہ بیٹھک نے جب ڈائریکٹر لیبر ڈیپارٹمنٹ رانا جمشید فاروق اور وولکا فوڈز کے مالک چوہدری ذوالفقار علی انجم کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا گیا تو وہ رابطے میں نہ آ سکے۔